جمعرات ، 11 ذیقعد، 1444ھ، یکم جون 2023ئ

حکومت کی پالیسی ناکام ہو گئی، ڈیفالٹ کا خطرہ ہے: مفتاح اسماعیل
یہ حضرت جب خود وزارت خزانہ میں تھے تب انہوں نے کون سا تیر چلا لیا تھا جو اب رو رہے ہیں۔ خدا جانے انہیں کیوں شوق ہے کہ ملک کو ڈیفالٹ قرار دلوانے کا؟ محبِ وطن لوگ ایک دوسرے کو تسلی دیتے ہیں، دُکھ درد بانٹتے ہیں ۔ مگر یہ بجائے صبر کی تلقین کرنے کے ہمت سے کام لینے کا حوصلہ دینے کے، اُلٹا روزانہ کی بنیاد پر حزب اختلاف کے بیانیے کو آگے پھیلانے کی ذمہ داری سنبھالے نظر آتے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب یہ لوگوں کو خوفزدہ نہیں کرتے۔ جب دیکھو رٹ لگائی ہوتی ہے کہ ”ملک ڈیفالٹ ہو رہا ہے“ بندہ¿ خدا اس بات کی کس کو خبر نہیں کہ ملک کے معاشی حالات بہت دگرگوں ہیں۔ ناقص معاشی پالیسیوں اور غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے روپیہ تیزی سے گر رہا ہے۔ ڈالر اور دیگر غیر ملکی کرنسیاں اوپر جا رہی ہیں۔ معیشت کا پہیہ جام ہے۔ مگر محب وطن پاکستانی پھر بھی ہمت و حوصلے سے کام لے رہے ہیں۔بقول ناصر کاظمی:
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
اگر ہم کسی کو حوصلہ نہیں دے سکتے تو کم از کم اس کی ڈھارس تو بندھا سکتے ہیں۔ مگر مفتاح اسماعیل اور پی ٹی آئی والے ہمہ وقت آس توڑنے کے درپے رہتے ہیں۔ اب تو یہ سُن سُن کر کان پک گئے ہیں کہ ”ملک ڈیفالٹ ہو چکا ہے یا اس کے قریب ہے“ آئی ایم ایف الگ نخرے دکھا رہا ہے۔ اب تو لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ ”جو ہونا ہے ہو جائے .... جو بلی تھیلے سے باہر آنی ہے آجائے“ دیکھ لیں گے کیا ہوتا ہے.... !!! اب بھی اگر حکمران عیاشیوں، کمیشنوں کے چکر سے نکل کر سادہ اور مثبت عوام دوست پالیسیاں بنائیں، فضول خرچیوں سے اجتناب کریں تو حالات بدل سکتے ہیں۔ مگر ایسا کرے کون؟ جن کے کھاتے چل رہے ہیں وہ بھلا یہ مفت کی کمائی کیسے اور کیوں چھوڑیں گے؟ اس لئے سب سے پہلے ان لوگوں سے جان چھڑانا ہوگی تب ملک کے معاشی حالات بہتر ہونگے....
٭٭٭
زیر تعمیر پل ٹوٹ کر دریائے نیلم میں جا گرا، 4 افراد جاں بحق
یہ خدا جانے تعمیر کی صورت میں تخریب ہمارے مقدر میں ہی کیوں لکھی ہوتی ہے۔ حرام خور ٹھیکیدار اور سرکاری افسران کی ملی بھگت سے ناقص مٹیریل استعمال کر کے لوگوں کی زندگیاں خطرہ میں کیوں ڈالی جاتی ہیں؟ چونکہ سزا کا خوف نہیں ہوتا اس لئے دو نمبری کرنے والے ہر جگہ اپنا دا¶ چلاتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے علاقہ ”دھنی بمبہ“ میں دریائے نیلم پر پل زیر تعمیر تھا جو تعمیر کے دوران ہی اپنا بوجھ نہ سہہ سکا اور گر کر دریا بُرد ہو گیا۔ جب سیمنٹ کی جگہ ریت اور سریے کی جگہ تار نما جنگلہ استعمال ہوگا تو یہی کچھ ہونا تھا۔ کمیشن کھانے اور پیسے بچانے کے لالچ میں نجانے کہاں کہاں ایسے دو نمبر کام ہوتے ہیں۔ جبھی تو ذرا سی بارش سے سڑکیں ڈیم اور پل بہہ جاتے ہیں۔ آزاد کشمیر حکومت کا تو بہت ہی بُرا حال ہے۔ وہاں جو حکومت آتی ہے وہ حقیقت میں ”لٹو تے پُھٹو“ پر عمل کرتی ہے۔ مری پار کرتے ہی کوہالہ تک اور وہاں سے آزاد کشمیر کے کسی بھی علاقے میں چلے جائیں سڑکوں اور پلوں کی ابتر حالت دیکھ کر انسان دوبارہ یہاں نہ آنے کی قسم کھاتا ہے۔ دنیا کا یہ خوبصورت سرسبز گھنے جنگلات اور برف پوش پہاڑوں سے ڈھکا ہوا علاقہ اسی لئے سیاحوں کی توجہ حاصل نہیں کر سکا کہ یہاں آمد و رفت کی کوئی بہتر سہولت نہیں۔ لوگ بھی اتنے صابر و شاکر ہیں کہ خدا کے سوا کسی سے شکوہ نہیں کرتے بلکہ راضی بر رضا رہتے ہیں .... ورنہ کوئی اور قوم ہوتی تو کب کا اپنے کرپٹ حکمرانوں کو اٹھا کر نیلم و جہلم میں عالی شان گاڑیوں اور بنگلوں سمیت غرقاب کر چکی ہوتی جو خود تو عیاشیاں کرتے پھرتے ہیں عوام خجل خوار ہو رہے ہیں۔
٭٭٭
پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کی سنچری مکمل
عمران خان خوش قسمت ہیں کہ بقول ان کے ان پر قائم مقدمات کی سنچری مکمل ہو گئی ہے۔ اب خبر ہے ان کی پارٹی چھوڑنے والوں کی بھی سنچری مکمل ہو گئی ہے۔ گویا سیاسی میدان میں بھی انہوں نے ڈبل سنچری بنا لی ہے۔ باقی رہی بات اچھی یا بُری کی تو اس کی فکر انہیں نہیں ہے۔ وہ ویسے بھی ”بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا“ والی بات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ مگر اس کے باوجود دیکھ لیں وہ ابھی تک اس خوش گمانی کے سحر میں گرفتار ہیں کہ وہ جس پر ہاتھ رکھیں گے یعنی جسے ٹکٹ دیں گے وہی جیتے گا۔ بات تو کسی حد تک ان کی درست بھی ہے۔ ان کے مخالفین بھی یہ حقیقت جانتے ہیں مگر کیا کیا جائے خان صاحب کی سیاسی اننگز کا۔ وہ بار بار غلط شارٹ کھیل رہے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ انکی پوزیشن خراب ہو رہی ہے۔ پہلے انہوں نے ہر جماعت سے بھاگ کر آنے والے کبوتروں کو اپنی جماعت کی منڈیر پر بٹھایا دانا دُنکا بھی کھلایا لیکن اب وہ اُڑ اُڑ کر واپس جا رہے ہیں اور خان صاحب اُن کو دیکھ کر حیران بھی ہیں اور پریشان بھی .... یہ سب وہ ہیں جو طاقتور اداروں کے ساتھ پنجہ آزمائی کے نتائج سے باخبر ہیں۔ دیکھ لیں بڑے بڑے نامور کھلاڑی اپنے کپتان کو چھوڑ گئے باقی جو رہ گئے ہیں وہ اس امید پر بیٹھے ہیں کہ شاید کوئی دا¶ لگے اور ”مائنس خان“ فارمولے کے بعد انہیں کپتانی مل جائے۔ عجب افراتفری کا ماحول ہے اس وقت پی ٹی آئی میں جان بچا کر چھپے ہوئے لیڈر بھی ڈر کے مارے اپنے کپتان کے پاس نہیں آرہے کہ انکی تنہائی کا مداوا کر سکیں۔ اب بھی اگر خان صاحب حوصلے سے، عقل سے کام لیں توڑنے کی بجائے تعلقات جوڑنے میں ہی زیادہ فائدہ ہوتا ہے کے فارمولے پر بھی عمل کر کے دیکھ لیں تو شائد بات بن جائے۔
٭٭٭
بلوچستان میں 19 سال بعد قومی کھیلوں کا انعقاد خوش آئند ہے: صدر مملکت کا افتتاحی تقریب سے خطاب
واقعی یہ بہت اچھی اور مثبت پیش رفت ہے ورنہ بلوچستان کے حوالے سے جو منفی پراپیگنڈا کیا جا رہا تھا اس کے بعد تو لوگ وہاں جانے سے ہی خوفزدہ ہو رہے تھے۔ بلوچستان سادہ لوح مہمان نواز اور بڑے دل والوں کا صوبہ ہے جہاں ابھی تک عزت و احترام کی فضا باقی ہے۔ یہ تو افغان مہاجرین کی آمد کے بعد وہاں حالات ابتر ہونا شروع ہوئے۔ بعد میں مذہبی اور سیاسی دہشت گردی نے صوبے کا امن برباد کر دیا۔ اب خدا خدا کر کے وہاں دوبارہ زندگی اپنی پرانی ڈگر پر لوٹ رہی ہے۔ گزشتہ دنوں بلوچستان میں قومی کھیلوں کے رنگا رنگ مقابلے نہایت اہتمام کے ساتھ منعقد ہوئے ملک بھر سے نوجوان کھلاڑیوں نے اس میں حصہ لیا خوب رونق لگی رہی۔ چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر، گلگت، بلتستان سے آئے لڑکوں اور لڑکیوں نے یہاں کی صورتحال کا مشاہدہ کیا تو انہیں پتہ چلا کہ کوئٹہ کتنا خوبصورت اور پُرسکون شہر ہے۔ یہاں کے لوگ کتنے اچھے ہیں، اتنا بڑا ایونٹ منعقد کرنے اور اسے خوش اسلوبی سے مکمل کرنے پر حکومت بلوچستان واقعی مبارک باد کی مستحق ہے۔ ویسے بھی جہاں کھیل کے میدان آباد ہوتے ہیں وہاں نفرتوں کا کاروبار کرنے والے مراکز خود بخود بند ہو جاتے ہیں۔ صحت مند جسم ہی صحت مند دماغ کو جنم دیتا ہے۔ اچھی سوچ اور اچھے خیالات سے زندگی میں مثبت تبدیلیاں آتی ہیں۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہنا چاہئے۔ امید ہے یہ سینکڑوں کھلاڑی اپنے ساتھ حسین یادیں لے کر جہاں جائیں گے وہاں بلوچستان کی تعریف ہی کریں گے بقول صدر مملکت ان کھیلوں کا انعقاد اس بات کی دلیل ہے کہ بلوچستان ایک پُرامن صوبہ ہے۔ خدا کرے یہ امن سدا برقرار رہے۔