جمعہ المبارک ، 12 ذیقعد، 1444ھ، 2جون 2023ئ

ذیابیطس میں پاکستان پہلے نمبر پر آگیا
اوّل تو یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ہم پاکستانیوں کو خوشی تب ہی ہوتی ہے جب ہم ٹاپ پوزیشن پر ہوں یا کم از کم پہلی تین پوزیشنوں میں سے ایک ہمارے حصہ میں آئے۔ کھیل کے مقابلے ہوں یا کرپشن کا میدان یا پھر بیماریوں کی درجہ بندی ہمیں اوپر رہنے میں ہی مزہ آتا ہے۔ اب عالمی ادارے نے جو ہوش رُبا رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق عالمی درجہ بندی میں ہم شوگر جیسی موزی بیماری میں دنیا بھر میں پہلے درجے پر فائز ہیں۔ یعنی نمبر ون نہیں یہ وہ بیماری ہے جو مرتے دم تک ساتھ نہیں چھوڑتی بلکہ مرتے ہوئے بھی سارے اعمال کی طرح قبر میں بھی ہمارے ساتھ اُتر جاتی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ قدم قدم پر ہماری زندگیوں میں کڑواہٹ کا زہر گھولا جاتا ہے اس کے باوجود ہمارے ہاں شوگر کی بیماری نجانے کس طرح چاروں طرف پھیلی ہے۔ کہتے ہیں شوگر والے کریلے کھائیں اور مٹھاس سے مکمل پرہیز کریں تو افاقہ ہوتا ہے۔ مٹھاس ہمارے ہاں ویسے بھی باقی نہیں رہی ”جسے دیکھو کریلا وہ بھی نیم چڑھا“ بنا نظر آتا ہے۔ اس کے باوجود حیرت ہے کہ شوگر نے کس طرح ہمیں پچھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہم نے بحیثیت قوم اور بحیثیت انسان اپنا لائف سٹائل تبدیل نہیں کیا تو پھر قدم بقدم اس شوگر والی ”میٹھی موت“ کی جانب بڑھتے رہیں گے۔ خوراک، ورزش، آرام اور بدپرہیزی سے اجتناب کر کے ہم محفوظ زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ مرنا برحق مگر خودکشی حرام ہے۔ آئیں مل کر شوگر کو شکست دیں اور وکٹری سٹینڈ سے نیچے آئیں۔ ورنہ ہمیں اوپر اُٹھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
٭٭٭٭
گجرات میں مطالبات پورے نہ کرنے پر دلہن والوں نے دولہا اور باراتیوں کو یرغمال بنا لیا
یہ ہوئی نا بات جب دولہا والے گردن پر انگوٹھا رکھ کر اپنے مطالبات منواتے ہیں۔ جہیز کے نام پر اپنا سارا گھر بھرتے ہیں تو دلہن والوں کا بھی حق ہے کہ وہ بارات کو دولہا سمیت یرغمال بنا کر اپنے مطالبات تسلیم کرائیں۔ اسلام میں نکاح کو آسان بنایا گیا ہے مگر ہم لوگوں نے ازخود غیر اسلامی رسومات کو اپنے سر پر سوار کر لیا ہے۔ جہیز، مہندی، بارات کے نام پر لاکھوں کا خرچہ کر کے لڑکی والوں کو زیر بار کیا جاتا ہے۔ جواب میں لڑکی والے بھی نامناسب حق مہر، زیور اور جیب خرچ کے نام پر ایسے مطالبات رکھتے ہیں جو کدورت پیدا کرتے ہیں اس سارے عمل میں زیادہ تر نقصان لڑکی والوں کا ہوتا ہے جو بیٹی کا گھر بسانے کی خاطر لڑکے والوں کے جائز و ناجائز مطالبات پورے کرتے ہیں اور تو اور ساس کو بھی سونے کی چین، جھمکے یا کڑے پہنانا بھی لازمی تصور ہوتا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے اگر لڑکی والے اس طرح زیادہ حق مہر اور جائیداد میں سے حصے کا تقاضہ کریں تو اس کو بُرا کیوں سمجھا جاتا ہے؟ یہ انتہا پسندی جو دونوں طرف پائی جاتی ہے نقصان دہ ہے سب جانتے ہیں بارات کا کھانا جائز نہیں مگر کھاتے ہیں، جہیز جائز نہیں پر لیتے ہیں۔ لگتا ہے اب لڑکی والوں کو بھی ہوش آنے لگا ہے۔ وہ بھی لین دین میں پورا اُترنے لگے ہیں۔ مگر اس طرح دونوں طرف کی غلط حرکتوں کا اثر وہ بھول جاتے ہیں اور یہ اثر شادی شدہ جوڑے پر ہوتا ہے۔ ان کی زندگیوں میں بدمزگی پیدا ہوتی ہے۔ شادی ساتھ نبھانے اور ذمہ داری اٹھانے کا نام ہے۔ خدارا اسے لین دین والا کاروبار نہ بنائیں۔ نئے جوڑے کو محبت و اطمینان سے جینے دیں، اس میں ہی سب کا بھلا ہے۔
٭٭٭٭
اگلے بیس برس میں رات کو ستارے نظر نہیں آئیں گے
ہمارے اپنے ہی ہاتھوں لگتا ہے وہ وقت قریب آن پہنچا ہے جب نصف صدی قبل کہی یہ بات:
میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا
سچ ثابت ہوگی۔ سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ آنے والے بیس سالوں میں گنجان آباد شہروں میں آلودگی کی وجہ سے وہاں کے بسنے والے کروڑوں افراد اب رات کو آسمان پر چھائی سیاہی کے سوا اور کچھ نہیں دیکھ پائیں گے۔ یہ خوبصورت چاند اور ستارے جو کروڑوں دلوں کو بھاتے ہیں جن پر لاکھوں اشعار اور کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ یہ سب ہماری نظروں سے اُوجھل ہو جائیں گے اور ہمارے سروں پر رات کو شب سیاہ چھائی رہے گی۔ یہ کتنے دُکھ کی بات ہے کہ ہم خود اپنے ہاتھوں سے قدرت کے اس حسین نظام کو تباہ کر رہے ہیں۔ بڑھتے ہوئے شہر، درختوں اور سبزے کا خاتمہ، ٹرانسپورٹ، فیکٹریوں اور کارخانوں کے علاوہ آلودگی کے دیگر سینکڑوں وجوہات نے کرہ ارض پر تباہی پھیلائی ہوئی ہے۔ اس میں اگرچہ س سے زیادہ ہاتھ صنعتی ترقی یافتہ ممالک کا ہے جن کی یہ مہربانیاں ہیں اور ان کی سزا ترقی پذیر ممالک بھگت رہے ہیں۔ مگر ہمیں خود بھی آلودگی پھیلانے والے عوامل پر نظر رکھنا ہوگی۔ جنگلات اور سبزے کو جگہ دینا ہوگی تب کہیں جا کر ہمارے ہاں بھی حالات کنٹرول میں آسکتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں تو صنعتی علاقوں کو چھوڑیں گلی محلوں میں بنی غیر قانونی فیکٹریاں جتنی آلودگی پھیلا رہے ہیں وہ سب جانتے ہیں۔ کچرا سرِعام جلایا جاتا ہے۔ سبزہ ختم کیا جا رہا ہے، درخت کاٹے جاتے ہیں مگر انتظامیہ قانون موجود ہونے کے باوجود خاموش ہے۔ یہ سب ایسے نہیں چلے گا کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔ ورنہ ہم بھی ستارے دیکھنے سے محروم رہ جائیں گے۔
٭٭٭٭
اڈیالہ جیل میں بند شاہ محمود قریشی سے پی ٹی آئی چھوڑنے والے رہنما¶ں کی ملاقاتیں
یہ بات کچھ دن سے گردش کر رہی ہے کہ پی ٹی آئی سے علیحدہ ہونے والے بہت سے سیاستدان کوشاں ہیں کہ شاہ محمود قریشی کو رام کیا جائے کہ وہ پی ٹی آئی کی قیادت سنبھال لیں۔ مگر اس کےلئے انہیں بھی شاید پریس کانفرنس کرنا پڑے۔ اس کام کےلئے ابھی تک شاہ محمود قریشی تیار نہیں وہ جانتے ہیں صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ آج نہیں تو کل مائنس عمران خان فارمولہ اگر کامیاب ہوتا ہے تو خودبخود وائس چیئرمین ہونے کے ناطے وہ پی ٹی آئی کے چیئرمین بن جائیں گے۔ مگر یاد رہے یہ اتنا آسان نیں کیونکہ اس وقت پی ٹی آئی کا پشتون دھڑا بھی خاصہ سرگرم ہے جو کسی صورت پنجابی قیادت انہیں آگے آنے نہیں دیں گے۔ ان کی کوشش ہوگی کہ پرویز خٹک کو آگے لایا جائے۔ اس کام میں مراد سعید اور خیبر پی کے میں متعدد بااثر روپوش سیاست دان مصروف ہیں ان کے نزدیک پنجاب والے وفادار نہیں خود عمران خان بھی کئی بار اس بات کو دھرا چکے ہیں۔ اس لئے اب صورتحال یہ ہے کہ جو جا چکے وہ بھی مصروف عمل ہیں جو روپوش ہیں وہ بھی مصروف ہیں۔ جو قید ہیں وہ بھی اس مخمصے میں ہیں کہ کیا کریں۔ عمران خان کو بھی کسی پر اعتبار نہیں پنجاب کو وہ ناراض کرنا نہیں چاہتے ویسے بھی جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی کا صفایا ہو گیا ہے۔ اس لئے شاہ محمود قریشی کو اپنی غیر موجودگی میں پارٹی معاملات دیکھنے کا کہا مگر ساتھ ہی پرویز خٹک کو بھی نتھی کر دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پارٹی قیادت کا جو خلا عمران خان کی غیر موجودگی میں سامنے آئے گا وہ خاصہ خطرناک ہو سکتا ہے اس سے پارٹی میں مزید ٹوٹ پھوٹ ہو سکتی ہے۔
٭٭٭٭