پیر ‘ 8 ذیقعد‘ 1444ھ‘ 29 مئی 2023ء

وا ہٹ ہاوس پر حملہ کرنیوالوں کو عدالت کی طرف سے طویل سزائیں۔
یہ سن کر تو پی ٹی آئی والوں کے پیروں تلے سے زمین کسھک گئی ہو گی۔ وہ تو کچھ اور ہی سوچ رہے تھے۔ اب امریکہ کی یہ دوغلی پالیسیاں سمجھ سے بالاتر ہیں۔ جو کام اپنے ملک میں امریکہ برداشت نہیں کرتا‘ اسے دوسرے ممالک میں برحق تسلیم کرتا ہے۔ قانون کی پاسداری ہو یا اظہار رائے کی آزادی اس معاملہ میں امریکہ کرتا کچھ ہے اور کہتا کچھ ہے۔ اب یہی دیکھ لیں 9 مئی کے سانحہ کے بعد خاص طور پر اور اس سے قبل عمران خان کی عدالتوں میں پیشی کے حوالے سے امریکہ کو پاکستان میں انسانی حقوق کا درد اس شدت سے اٹھا ہے کہ امریکی سینیٹرز نے یہ معاملہ سینیٹ میں اٹھانے کا اعلا ن کیا ہے۔ صاف لگتا ہے امریکہ پاکستان میں فوج مخالف جذبات بھڑکانے پر خوش ہے۔ وہ ہماری فوجی طاقت کو کچلنا چاہتا ہے تاکہ پاکستان کو اس کی خواہش کے مطابق بنانا ری پبلک بنایا جائے یا شام، لیبیا، سوڈان کی طرح خانہ جنگی کی لپیٹ میں لایا جائے۔ ورنہ کیا یہ دو رنگی نہیں کہ خود امریکہ میں وائٹ ہائوس پر حملہ کرنے والوں کو وہاں کی عدالتوں نے کڑی سزائیں سنائی ہیں۔ ہمارے الفاظ میں انہیں ٹانگ دیا ہے۔ اس پر تو پورے امریکہ میں کسی سماجی یا سیاسی تنظیم نے آواز تک بلند نہیں کی، مگر یہی عمل جب پاکستان میں اہم فوجی عمارتوں، سرکاری تنصیبات پر حملہ کرے والوں کے خلاف کیا جائے تو امریکہ پر مرگی کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ اگر ٹرمپ کے شدت پسند حامیوں کو طویل سزائیں مل سکتی ہیں ، ٹرمپ کو عدالت کے کٹہرے میں بطور ملزم لایا جا سکتا ہے تو ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ آخر ٹرمپ نے بھی تو صرف کہا تھا نہیں چھوڑوں گا ، سخت گڑ بڑ ہو گی۔ وہ کونسا خود پتھرائو کر رہا تھا یا آگ لگا رہا تھا۔ یہی ہمارے ہاں بھی ہوا ہے تو قانون کے مطابق مجرموں کو سزا ملنی چاہیے امریکہ روئے یا ہنسے۔
٭٭٭٭٭
جہانگیر ترین سے پی ٹی آئی چھوڑنے والے 100 سے زائد ارکان اور 26 کے ق لیگ سے رابطے
جب کوئی بڑا جانور مرے تو اس کی نعش نوچنے کے لیے بہت سے جانور جمع ہو جاتے ہیں اور اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ جب تحریک انصاف کا عروج تھا تو اس نے بھی یہی کیا۔ پی پی ، نواز لیگ، ق لیگ اور نجانے کون کون سی جماعت کا گوشت نوچ نوچ کر پیٹ بھرا۔ تب تو اعلان ہوتا تھا آج ایک وکٹ گری ہے کل تین گریں گی۔ جب مکافات عمل شروع ہوا تو حساب کچھ زیادہ ہی الْٹ ہو گیا۔ کھلاڑیوں نے کپتان سے کنارہ کشی کرتے ہوئے اس کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا اور اس وقت عمران خان عالم حیرانگی یا تنہائی میں بیٹھ کر
کنارہ کرتے ہوئے دوست شرمسار نہیں
وہ ابتلا ہے کہ سائے کا اعتبار نہیں
والے شعر پر غور کر رہے ہوں گے۔ مگر خود انہوں نے کونسا کسی وفادار کے ساتھ وفاداری نبھائی، جنہوں نے اپنے کاندھوں پر بٹھا کر سونے کی بیساکھیوں کے سہارے ان کا اور پی ٹی آئی کا بوجھ اٹھایا۔ ان سب کو خان جی نے یوں پارٹی سے باہر نکال کیا۔ جیسے ددھ میں سے بال نکالا جاتا ہے۔ آج دیکھ لیں پی ٹی آئی سے کنارہ کشی کرنے والے 100 میں سے 80 فیصد ارکان صوبائی و قومی اسمبلی جہانگیر ترین سے رجوع کر رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس وفادار نے کبھی خان جی کے بدترین رویے کے خلاف اْف تک نہیں کیا۔ 20 فیصد ق لیگ کی طرف جا رہے ہیں۔
اب دیکھنا ہے جہانگیر ترین پی ٹی آئی کا ہی دھڑا بنا کے سیاست میں آتے ہیں یا نئی جماعت بناتے ہیں۔ دوسروں کے ڈیرے برباد کرنے والے آج تنہا دوسروں کے ڈیرے آباد ہو تے دیکھ رہے ہیں۔ اب دیکھنا ہے باقی کب اس سے کنارہ کش ہوتے ہیں۔ عمران خان خود بھی ذہنی طور پر مائنس ون فارمولے کو تسلیم کر چکے ہیں۔ ایک پرانے فلمی نغمے کے بول ہیں
کل تک جو کہتے تھے ا پنا آج وہی بیگانے ہیں
بیگانوں کو اپنا سمجھے ہم کیسے دیوانے ہیں
اس لیے عمران خان پریشان نہ ہوں۔ لوٹ کا مال ایسا ہی ہوتا ہے۔ کب آیا کہاں گیا پتہ نہیں چلتا۔
٭٭٭٭٭
یٰسین ملک کے مقدمے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔محبوبہ مفتی
بھارت سے کچھ بعید نہیں کہ وہ واقعی یٰسین ملک کو کسی نام نہاد عدالتی کارروائی کے بعد واقعی اس طرح پھانسی پر لٹکا دے۔ جس طرح انہوں نے جے کے ایل ایف کے قائد مقبول بٹ شہید اور ان کے کئی سالوں بعد ان کے ایک اور جری پیروکار افضل گورو کو تہاڑ جیل میں ہی مقدمہ چلا کر پھانسی کی سزا دی اور تختہ دار پر لٹکا دیا تھا۔ مگر وہ بھول گیا کہ ان شہادتوں سے آزادی کا سفر اور تیز ہوا بقول فیض
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چکے درد کے فاصلے
مشعال ملک کا بھی یہ گلہ بجا ہے کہ اگر بھارت اپنے جاسوس کلبھوشن کا کیس بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ عالمی عدالت میں اْٹھا سکتا ہے تو حکومت پاکستان ایسا کیوں نہیں کرتی کہ اپنے شہ رگ کے ایک سیاسی فرزند کو پھانسی سے بچانے کے لیے اس کا معاملہ عالمی عدالت میں کیوں نہیں اٹھاتی۔ کیا بھارت کو آسانی سے اس بات کی اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ یٰسین ملک کو بھی اسی طرح تختہ دار پر لٹکا دے جس طرح مقبول بٹ اور افضل گورو کو لٹکایا اور ان کی نعشیں بھی واپس نہیں دیں اور انہیں تہاڑ جیل دہلی میں بھی دفنا دیا گیا۔ بھارتی ایجنسی کی طرف سے بھارتی عدالت میں یٰسین ملک کو پھانسی دینے سے متعلق کیس پر مقبوضہ کشمیر میں بھی احتجاج کیا جا رہا ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے برحق کہا ہے کہ اس مقدمہ پر نظرثانی کی جائے جو لوگ اس پر خوشی منا رہے ہیں وہ ہمارے حقوق کے دشمن ہیں۔ اب دیکھنا ہے ہمارے ارباب اختیار کب اس طرف توجہ دیتے ہیں۔
گلہ تو آزاد کشمیر حکومت سے بنتا ہے۔ کیا وہ اپنی عیاشیوں سے وقت نکال کر اس طرف توجہ نہیں دے سکتی کیوں عالمی سطح پر اس مسئلہ پر بات نہیں کرتی۔ لاکھوں کشمیری بیرون ملک آباد ہیں وہ مل کر آواز بلند کریں انسانی حقوق کے ہر فورم پر دستک دیں۔ آزاد کشمیر حکومت سرکاری سطح پر عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے تو بات بن سکتی ہے۔ حکومت پاکستان اس وقت اپنے بکھیڑوں میں اْلجھی ہے۔
٭٭٭٭٭