منگل ‘ 9 ذیقعد‘ 1444ھ‘ 30 مئی 2023ء

عمران کے ساتھ ہوں۔ میرے قتل کے لئے 3 افراد ہائیر کر لئے ہیں، شیخ رشید
جو باتیں شیخ جی آج عمران خان کے بارے میں کہہ رہے ہیں دوستی ہو یا دشمنی قبر تک نبھائوں گا۔ یہی سب کچھ وہ کبھی میاں نواز شریف کے بارے میں بھی ان کے قدموں میں بیٹھ کر کہتے تھے۔ اس وقت وہ ان کے قائد تھے۔ ہاں البتہ ایک بات انہوں نے ایسی کہہ دی ہے جس سے شاید عمران خان خوش نہیں ہوں گے۔ شیخ رشید کہہ رہے ہیں کہ ان کو قتل کرنے کے لئے 3 افراد کو چن لیا گیا ہے۔ عام زبان میں یوں کہہ لیں ان کے قتل کی سپاری دیدی گئی ہے۔ یہ تو براہ راست عمران خان کے مقابلے میں آنیوالی بات ہے۔ یہ بات یا دعویٰ عمران خان کافی عرصہ پہلے کر چکے ہیں کہ ان کو قتل کرنے کی سازش تیار ہے اگر مجھے کچھ ہوا تو تین افراد ذمہ دار ہوں گے۔ انہوں نے تو نام بقول انکے لکھ کر بیرون ملک کسی لاکر میں محفوظ کر دیئے ہیں۔ اب معلوم نہیں شیخ رشید بھی ویسے ہی پْراسرار کہانی بنائیں گے یا ان تین افراد کے نام بتائیں گے جن کو انہیں مارنے کیلئے تیار کیاگیا ہے۔ ویسے تو سوشل میڈیا پر ایک لطیفہ چل رہا ہے کہ عمران خان اپنے شیخ جی کہہ رہے ہیں کہ آپ کو کیا خطرہ۔ پارٹی آپ کی نہیں ٹوٹ سکتی کیونکہ آپ اکیلے پارٹی ممبر ہیں۔ بیوی بچے آپ کے نہیں جنہیں پولیس تنگ کرے۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ مگر بس شیخ فارم ہائوس و دیگر اراضی جو انہوں نے اِدھر اْدھر ہاتھ مار کر اپنے قبضہ میں کی ہے۔ وہ کوئی لال حویلی سمیت ان کے قبضے سے نہ چھڑالے۔ رہی بات جیل اور کچہری کی تو خود شیخ رشید کہتے ہیں ہتھکڑی ان کا زیور اور جیل ان کا سسرال ہے۔ مگر نجانے کیوں وہ اس زیور اور سسرال سے بری طرح الرجک ہیں۔ جب سسرال والے (پولیس) انہیں لینے آتے ہیں تو وہ چھلاوے کی طرح غائب ہو جاتے ہیں اور سسرال سے دور بھاگتے ہیں۔ آج کل وہ تنہا نہیں پی ٹی آئی کے بچے کھچے رہنما اور کارکن بھی جان بچانے کے لئے اسی طرح اِدھر اْدھر بھاگتے پھرتے ہیں۔ نجانے کیوں یہ لوگ جیلوں سے اور سزائوں سے گھبراتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
مولانا فضل الرحمن نجی دورے پر تھائی لینڈ پہنچ گئے
لگتا ہے سیاسی افراتفری اور کشیدگی سے مولانا فضل الرحمن کے اعصاب تھک گئے ہیں اور اب وہ کچھ آرام کرنا چاہتے ہیں۔ جبھی تو اس جج کی پروازوں کے موسم میں وہ بقول اکبر الہ آبادی…
سدھارے شیخ کعبہ کو ہم انگلستان دیکھیں گے
وہ دیکھیں گھر خدا کا ہم خدا کی شان دیکھیں گے
روانہ بھی ہوئے تو کہاں تھائی لینڈ جو ایک پْرلطف تفریحی ملک ہے۔ جہاں کے قحبہ خانے، جوئے خانے، مساج گھر، پلے لینڈ اور بدھ ازم کے تاریخی مقامات و اسٹوپے کے علاوہ مقامی رقص بھی دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں۔ اس وقت جب مخالفین زخمی سانپ کی طرح مولانا پر پلٹ پلٹ وار کر رہے ہیں ان کے خلاف طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ اچانک مولانا کے تھائی لینڈ کے نجی دورے سے انہیں اور بھی موقعہ ملے گا زبان درازی کرنے کا، مگر مولانا ان تمام باتوں سے بے نیاز نظر آتے ہیں۔ بہتر ہوتا مولانا جانے سے قبل کہہ دیتے کہ وہ اصلاحی دورے پہ جا رہے ہیں۔ حقیقت میں بھی اس فسق و فجور میں ڈوبے ملک کو اس وقت اصلاح کی ضرورت ہے۔ باقی رہے وہاں کے لوگ تو وہ اپنے بادشاہ کے زیرسایہ نہایت اطمینان سے اپنی من پسند زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دنیا بھر سے ہرسال لاکھوں سیاح وہاں آتے ہیں۔ دل بہلاتے ہیں۔ دریائوں ندی نالوں میں ہمہ وقت کشتیاں سیاحوں سے بھری ہوتی ہیں۔ ہوٹلوں میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔ تھائی لینڈ جو بدھ بھکشوئوں گوتم بدھ کے مندروں اور ہاتھیوں کی سرزمین ہے اپنے روایتی الم غلم کھانوں کی وجہ بھی دنیا کے سب سے زیادہ سیاحتی ممالک میں سے ایک ہے جو سالانہ اربوں روپے اس مد میں کماتا ہے…
٭٭٭٭
8 سالہ بچی کی 60 کلو وزن اٹھانے کی ویڈیو وائرل
جی ہاں یہ رستم ثانی کہہ لیں یا باہو بلی کہلانے کے لائق بچی کا تعلق بھارت کے شہر ہریانہ سے ہے۔جس نے 8 سال کی عمر میں اتنا وزن اٹھا کر سب کو حیران کر دیا ہے۔ بھارتی میڈیا میں اسے مضبوط بچی قرار دیا گیا ہے۔ عام طور پر دو نمبر خوراک کھا کھا کر جوان ہونے والے بھی اتنا وزن نہیں اٹھا سکتے۔ بھارتی تو ویسے ہی سبزی اور دال خور ہیں ان میں بھلا اتنی جان کہاں سے آئے۔ مگراس بچی کا تعلق ہریانہ یعنی پنجاب سے ہے تو پنجابیوں کی بات ہی علیحدہ ہے۔ وہ خوش خوراک ہوتے ہیں۔ دودھ، دیسی گھی، مکھن، انڈے، مچھلی، مرغی اور چھپ چھپا کہ گوشت خواہ بکرے کا ہو یا بیل کا وہ کھانے سے نہیں چوکتے، جی ہاں ذرا مسلم علاقوں میں(بھارت کے) جا کر دیکھ لیں تمام تکے کبابوں، بریانی اور نہاری کے علاوہ کڑاہی کی دکانوں پہ پنجابیوں، کیرالہ اور بنگال والوں کا رش ہوتا ہے۔ وہ سب نہایت مزے لے لے کر یہ کھانے کھاتے ہیں جو مسلمان کھاتے ہیں۔ اب اس بچی کے حوالے سے یہی کہا جا سکتا ہے مستقبل میں یہ ہو سکتا ہے۔ رستم ثانی بجرنگ بلی یا باہو بلی بن کر خوب نام کمائے ہو سکتا ہے ہندوستان فلم انڈسٹری والے اس کے لئے چھوٹا بھیم کی طرز سے چھوٹی بھیم نامی ڈرامہ سیریل بنا ڈالیں۔ یا فلم بنا ڈالیں وہاں ویسے ہی طاقتوروں کی دیوتا کی طرح پوجا کی جاتی ہے۔ تو اب یہ تو ایک جیتی جاگتی دیوی سامنے ہے تو اس پر فلم بھی خوب چلے گی۔ بس ذرا احتیاط رہے کہ پاکستان مخالف فلموں کی طرح اس میں جھوٹے قصے ذرا کم ہی ڈالیں جائیں ورنہ دنیا کہہ گی کہ بھارتی فلمیں صرف پاکستان مخالف پراپیگنڈہ ہوتی ہیں۔ ویسے بہتر ہے کہ اسے ’’مہاشکتی مان‘‘ کا ایوارڈ دیا جائے تاکہ دوسروں کی بھی حوصلہ افزائی ہو اور وہ ایسے بچے پیدا کر نے کی کوشش کریں جو واقعی شکتی مان ہوں۔
٭٭٭٭
پنجاب بھر میں ایک لاکھ سے زیادہ سرکاری ٹیچرز کی کمی کا انکشاف
لگتا ہے گزشتہ 5 سالوں میں پڑھا لکھا پنجاب والے نعرے کا بھی وہی حشر ہوا ہے جو سرسبز پنجاب والے نعرے کا ہوا۔ سرسبز پنجاب والے نعرے کا حشر ہم آج ہم مہنگائی کی صورت میں زرعی اجناس کی قلت کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ سونے کی چڑیا اناج کا گھر کہلانے والا پنجاب آج آٹا، چاول، چینی، دالیں اور سبزیوں کے حصول کے لیے دربدر ہے۔ ان چیزوں کی قیمتیں عام آدمی کی تو بات چھوڑیں متمول طبقے کی پہنچ سے بھی باہر ہے۔ اسی طرح پڑھا لکھا پنجاب والے نعرے کی حالت یہ ہے کہ پنجاب میں ہر سال کروڑوں بچے پرائمری سکول میں ہی تعلیم ادھوری چھوڑ کر کام کاج میں ڈالے جاتے ہیں۔ کروڑوں بچے داخلے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ سرکاری سکولوں کی حالت بھوت بنگلوں جیسی ہے۔ ہزاروں سکولوں میں بنیادی سہولتیں میسر نہیں۔ بچے زمین پر بیٹھ کر آسمان فتح کرنے کے خواب دیکھنے سے تو رہے۔ ایسا سوچنا بھی حماقت ہے کیونکہ ان کو تعلیم دینے والے استاد بھی ہزاروں سکولوں میں پورے نہیں۔ نہ حکومت کو پرواہ ہے نہ محکمہ تعلیم کو ہر سال اربوں روپے تعلیم کے نام پر سرکاری سکولوں کو دئیے جاتے ہیں تو غتربود ہو جاتے ہیں۔ اب اس رپورٹ میں دیکھ لیں پنجاب میں ایک لاکھ 9 ہزار سے زیادہ ٹیچرز کی آسامیاں خالی ہیں۔ دور دراز علاقوں میں کوئی استاد جانے کو تیار نہیں یہ سب استاد یونین کے دبائو کو بروئے کار لا کر اپنی استادیاں دکھاتے ہیں اور شہروں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو سرسبز پنجاب کے زرعی اجناس کی قلت کی طرح جلد ہی ہمارے پنجاب میں پڑھے لکھے لوگوں کا کال پڑ جائے گا۔ ویسے بھی سب کہتے ہیں نوکریاں تو ہیں نہیں پھر بچوں کا مستقبل پڑھا لکھا کر کیوں برباد کریں۔ بہتر ہے انہیں کسی کام پر ڈال دیں دو وقت کی روٹی تو کما لے گا۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہمارے ارباب سیاست اور حکمران تعلیمی تباہی پر توجہ دیں اور شرح تعلیم کے ساتھ اساتذہ کی کمی بھی دور کر کے پنجاب کو واقعی پڑھا لکھا پنجاب بنا دیں۔ ورنہ ہمارے پاس تو ’’اج اکھاں وارث شاہ نوں‘‘ کہنے والا بھی کوئی باقی نہیں ہے۔
٭٭٭٭٭